راہ میں پڑتی تھی دیوار نہیں دیکھ سکا
میں کہ اس پار تھا اس پار نہیں دیکھ سکا
دیکھتا تھا جسے روزانہ کی بنیاد پہ میں
ایک دو سال سے اک بار نہیں دیکھ سکا
یار تو کیسے کسی شخص کی جاں لیتا ہے
اس پہ کیا غم کہ چرائی ہیں نگاہیں اس نے
میں بھی تو اس کو لگاتار نہیں دیکھ سکا
تُو اے دشمن میری حالت کو کہاں دیکھے گا
میری جانب تو میرا یار نہیں دیکھ سکا
اس لیے عمر سے میں تجھ کو بڑا لگتا ہوں
تُو میرے ہجر کی رفتار نہیں دیکھ سکا
ایسی ترتیب سے رکھا تھا سجا کر دانش
مال میں "نقص" خریدار نہیں دیکھ سکا
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment