Sunday, 26 July 2020

راہ میں پڑتی تھی دیوار نہیں دیکھ سکا

راہ میں پڑتی تھی دیوار نہیں دیکھ سکا
میں کہ اس پار تھا اس پار نہیں دیکھ سکا
دیکھتا تھا جسے روزانہ کی بنیاد پہ میں
ایک دو سال سے اک بار نہیں دیکھ سکا
یار تو کیسے کسی شخص کی جاں لیتا ہے
میں تو اک چڑیا کو بیمار نہیں دیکھ سکا
اس پہ کیا غم کہ چرائی ہیں نگاہیں اس نے
میں بھی تو اس کو لگاتار نہیں دیکھ سکا
تُو اے دشمن میری حالت کو کہاں دیکھے گا
میری جانب تو میرا یار نہیں دیکھ سکا
اس لیے عمر سے میں تجھ کو بڑا لگتا ہوں
تُو میرے ہجر کی رفتار نہیں دیکھ سکا
ایسی ترتیب سے رکھا تھا سجا کر دانش
مال میں "نقص" خریدار نہیں دیکھ سکا

دانش نقوی

No comments:

Post a Comment