وہ پانی کی لہروں پہ کیا لکھ رہا تھا
خدا جانے حرفِ دعا لکھ رہا تھا
ذرا اس کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلے
وہ جب زندگی کو سزا لکھ رہا تھا
محبت میں نفرت ملی تھی اسے بھی
جو ہر شخص کو بے وفا لکھ رہا تھا
یہ اس کی نوازش تھی یا بے رخی تھی
وہ مجبوریوں کو انا لکھ رہا تھا
لکھا جس نے ناول وفا کا ادھورا
وہی پیار کی انتہا لکھ رہا تھا
بھلا کرتے کرتے گزاری زندگی
مگر پھر بھی خود کو برا لکھ رہا تھا
نمازِ محبت میں وہ اپنے
ہوئے تھے جو سجدے قضا لکھ رہا تھا
میں راشد محبت نبھاتا بھی کیسے
وہ قاتل کو دست حنا لکھ رہا تھا
راشد ترین
No comments:
Post a Comment