Friday, 2 October 2020

البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے

البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے

لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے

بھولے ہوئے کچھ نامے، بھلائے ہوئے کچھ نام

کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے

تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مِرے کب سے

عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے

حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر

خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل آئے

پتھریلی زمینیں تھیں، مگر حوصلہ سچا

ہم تیشہ لئے پیاس بجھانے نکل آئے

اک ناوکِ بے نام تھا ہر روز عقب سے

ہم باندھ کے سینوں پہ نشانے نکل آئے

گھر سے نہ نکلنا بھی روایت تھی ہماری

بس اپنی روایات بچانے نکل آئے


ظہیر احمد

No comments:

Post a Comment