Friday, 2 October 2020

بھلائیں گے اسے لیکن ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ

 بھلائیں گے اسے

لیکن

ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ

ابھی رستے میں ہے وہ موج ساحل تک نہیں پہنچی

جو گیلی ریت کی چادر پہ بکھرے

اس کے قدموں کے نشاں

وارفتگی سے چوم کر معدوم کر ڈالے

ابھی پت جھڑ کا سایہ اس قدر گہرا نہیں اترا

کہ دل کی سوکھتی ٹہنی سے

اس کی آرزو کا آخری پتا بھی جھڑ جائے

ابھی تک میں نے اس احساس کی مٹھی نہیں کھولی

کہ جس میں قید کر رکھی ہے اس کے لمس کی حدت

ابھی دوری کی نشتر کاریوں کے زخم بھرنے دو

ذرا سا وقت کے مرہم کو اپنا کام کرنے دو

نواحِ جاں سے اس کے قر ب کا احساس جانے دو

مِرے کاندھے سے اس کے آنسوؤں کی باس جانے دو

ابھی کچھ دن


عابد سیال

No comments:

Post a Comment