Friday, 2 October 2020

یہ تو نہیں کہ ہم پہ ستم ہی کبھی نہ تھے

 یہ تو نہیں کہ ہم پہ ستم ہی کبھی نہ تھے

اتنا ضرور تھا کہ وہ نا گفتنی نہ تھے

اے چشم التفات! یہ کیا ہو گیا تجھے

تیری نظر میں ہم تو کبھی اجنبی نہ تھے

پھرتے ہیں آفتاب زدہ کائنات میں 

ہم پر کسی کی زلف کے احساں کبھی نہ تھے 

پامال کر دیا جو فلک نے تو کیا کہیں 

ہم تو کسی کمال کے بھی مدعی نہ تھے 

کیا جرم تھا یہ آج بھی ہم پر نہیں کھلا 

یہ علم ہے کہ اہل جنوں کشتنی نہ تھے 

ہر لمحہ تیرے عشق میں عمر ابد بنا 

جو دن بھی زندگی کے ملے عارضی نہ تھے 

مرجھا کے بھی گئی نہ مہک جسم ناز کی 

یہ موتیے کے پھول کوئی کاغذی نہ تھے 

یارانِ شہر عشق میں بے آبرو ہوئے 

ہم پر تو مہرباں وہ کبھی تھے کبھی نہ تھے 

اقلیم عاشقی کو دیا دین شاعری 

ہم صاحبِ کتاب تھے گرچہ نبی نہ تھے 

ہم جن کی نذر کرتے جواہر کلام کے 

طاہر ہمارے شہر میں وہ جوہری نہ تھے 


جعفر طاہر

No comments:

Post a Comment