Friday, 2 October 2020

نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے

 نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے

یہی بہت ہے کہ آنکھوں میں کچھ نمی آئے

اندھیری رات میں کاسہ بدست بیٹھا ہوں

نہیں یہ آس کہ آنکھوں میں روشنی آئے

ملے وہ ہم سے، مگر جیسے غیر ملتے ہیں

وہ آئے دل میں، مگر جیسے اجنبی آئے

خود اپنے حال پہ روتی رہی ہے یہ دنیا

ہمارے حال پہ دنیا کو کیوں ہنسی آئے

نہ جانے کتنے زمانوں سے ہم بہکتے ہیں

فقیہہ بہکے تو کچھ لطفِ مے کشی آئے

صلیب و دار کے قصے بہت پرانے ہیں

صلیب و دار تو ہمراہِ زندگی آئے

ہری نہ ہو نہ سہی، شاخِ نخل غم کی اریب

ہمارے گریۂ پیہم میں کیوں کمی آئے


سلیمان اریب

No comments:

Post a Comment