Friday, 2 October 2020

منزل بھی ملے گی رستے میں تم راہگزر کی بات کرو

 منزل بھی ملے گی رستے میں تم راہگزر کی بات کرو

آغاز سفر سے پہلے کیوں انجام سفر کی بات کرو

ظالم نے لیا ہے شرما کر پھر گوشۂ داماں چٹکی میں

ہے وقت کہ تم بے باکی سے اب دیدۂ تر کی بات کرو

آیا ہے چمن میں موسم گل آئی ہیں ہوائیں زنداں تک

دیوار کی باتیں ہو لیں گی اس وقت تو در کی بات کرو

ہے تیز ہوا ہلتا ہے قفس خطرے میں پڑی ہے ہر تیلی

فریاد اسیری بند کرو،۔ اب جنبش پر کی بات کرو

کیوں دار و رسن کے سائے میں منصور کی باتیں کرتے ہو

رکھنا ہے جو اونچا سر اپنا تو اپنے ہی سر کی بات کرو

کیوں اہل جنوں ارباب خرد کی محفل میں خاموش رہیں

وہ اپنے ہنر کی بات کریں، تم اپنے ہنر کی بات کرو

کیا بربط و دف دم توڑ چکے موت آ گئی کیا ہر نغمے کو

تم مطرب جام و مینا ہو، کیوں تیغ و سپر کی بات کرو


پرویز شاہدی

No comments:

Post a Comment