Friday, 2 October 2020

عزت ذرا سی دے کے مجھے مان سے اٹھا

 عزت ذرا سی دے کے مجھے مان سے اٹھا

زخموں سے چُور ہوں میں، ذرا دھیان سے اٹھا

اپنے غرورِ فتح کا اعلان سب میں کر

کٹ کر گرا ہے سر مِرا، پیکان سے اٹھا

کر روشنی کے خواب کی تعبیر دم بہ دم

اک اک کرن کو روزنِ زندان سے اٹھا

ایمان و پارسائی کے بس کی نہ تھی یہ بات

ساگر کا بوجھ طبعِ پریشان سے اٹھا

مل جا مِرے حریف سے، پروا نہ کر مِری

اے دوست! فائدہ مِرے نقصان سے اٹھا

اپنی عبادتوں کے تماشوں سے کر گریز

زاہد نہ یوں یقیں مِرا ایمان سے اٹھا


مجید اختر

No comments:

Post a Comment