Friday, 2 October 2020

نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے

 نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے

جانِ مے خانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے

ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے

پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہگزار

ذرے جو خاک سے اٹھے، وہ صنم خانہ بنے

موجِ صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے

ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ مے خانہ بنے

کار فرما ہے فقط حسن کا نیرنگِ کمال

چاہے وہ شمع بنے، چاہے وہ پروانہ بنے

چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو

ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے

خاک پروانے کی برباد نہ کر بادِ صبا

عین ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

جرعۂ مے تِری مستی کی ادا ہو جائے

موجِ صہبا تِری ہر لغزشِ مستانہ بنے

اس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے

جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے

جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے


اصغر گونڈوی

No comments:

Post a Comment