Friday, 2 October 2020

سفید پھول ملے شاخ سیم بر کے مجھے

 سفید پھول ملے شاخ سیم بر کے مجھے

خزاں کو کچھ نہ ملا بے لباس کر کے مجھے

تھی دشت خواب میں اک تیری جستجو مجھ کو

کہ تجھ سے شکوے ہزاروں تھے عمر بھر کے مجھے

میں اپنے نام کی تختی میں تھا، شریر ہوا

گلی میں پھینک گئی بے نشان کر کے مجھے

اب اس نگر میں تو کچھ بھی نہیں ہے، رک جاؤ

صدائیں دیتے پھرو گے گھروں سے ڈر کے مجھے

مجھے یقیں نہ ملی تجھ کو دولت بیدار

مجھے یہ وہم ملے ڈھیر سیم و زر کے مجھے

کبھی گلے نہ لگایا مجھے مگر پھر بھی

طواف کرنے پڑے شہر بے ثمر کے مجھے


وزیر آغا

No comments:

Post a Comment