Thursday 24 December 2020

سلنڈر پھٹ گیا تھا جی

 سلنڈر


نہیں یہ میں نہیں ہوں

میں بہت ہی خوبصورت تھی

مرے بابا مجھے گڑیا بلاتے تھے

مری امی مجھے جب ڈانٹ بھی دیتیں

تو سینے سے لگا کر گال میرے چوم لیتی تھیں


مگر ان ظالموں نے ہاتھ پیلے کر کے

ہاتھوں کی لکیروں کو بھی نیلا کر دیا ہے

کبھی یہ نیل سارے پھیل کر

میرے بدن کا پیرہن ہی بن گئے ہوتے

چلو اچھا ہوا یہ نامکمل پیرہن بھی جل گیا ہے

مجھے لگتا ہے میرے جسم پر کپڑا نہیں شاید

اگر میں دیکھ سکتی تو

جہاں نوشی مرا بچہ اٹھائے چپ کھڑی ہے

میں وہاں سے دیکھتی خود کو

تو جالی پر پڑی اس نقرئی چادر کو اپنا پیرہن کہتی

نہ جانے آج پہلی بار کیوں ہوں منتظر ان کی

وگرنہ ان کے آنے کے سمے دل ڈوب جاتا تھا

کہ کمرے میں پہنچنے تک

ہزاروں جرم کی وہ داستانیں

جو سحر سے شام تک منسوب کی جاتی تھیں مجھ سے

ان کے کانوں تک پہنچتی تھیں

اگر میں بول سکتی تو

ہمیشہ کی طرح میں آج بھی اتنا ہی کہہ پاتی

"سلنڈر پھٹ گیا تھا جی"

مرے شوہر وہی سنتے ہیں

اور اتنا ہی سنتے ہیں

جو سننا چاہتے ہیں وہ

بھلا اب جاتے جاتے کیوں کسی کا نام لوں گی میں

وگرنہ بددعائیں پھر لحد سے حشر تک پیچھا کریں گی اور

جہنم جو یہاں کاٹی وہاں بھی منتظر ہو گی

انہوں نے فون پر ان کو بھی یہ بتلا دیا ہو گا

انہوں نے زیرِ لب دہرا دیا ہو گا

"سلنڈر پھٹ گیا ہو گا"

چلو اچھا ہوا بے ربط سانسیں کچھ ہی گھنٹوں میں

یا شاید چند لمحوں میں رکیں گی تو

برائی کی وہ جڑ

جو ان کے گھر کی بے سکونی کی وجہ تھی

کٹ چکی ہو گی


سردار فہد

No comments:

Post a Comment