سلنڈر
نہیں یہ میں نہیں ہوں
میں بہت ہی خوبصورت تھی
مرے بابا مجھے گڑیا بلاتے تھے
مری امی مجھے جب ڈانٹ بھی دیتیں
تو سینے سے لگا کر گال میرے چوم لیتی تھیں
مگر ان ظالموں نے ہاتھ پیلے کر کے
ہاتھوں کی لکیروں کو بھی نیلا کر دیا ہے
کبھی یہ نیل سارے پھیل کر
میرے بدن کا پیرہن ہی بن گئے ہوتے
چلو اچھا ہوا یہ نامکمل پیرہن بھی جل گیا ہے
مجھے لگتا ہے میرے جسم پر کپڑا نہیں شاید
اگر میں دیکھ سکتی تو
جہاں نوشی مرا بچہ اٹھائے چپ کھڑی ہے
میں وہاں سے دیکھتی خود کو
تو جالی پر پڑی اس نقرئی چادر کو اپنا پیرہن کہتی
نہ جانے آج پہلی بار کیوں ہوں منتظر ان کی
وگرنہ ان کے آنے کے سمے دل ڈوب جاتا تھا
کہ کمرے میں پہنچنے تک
ہزاروں جرم کی وہ داستانیں
جو سحر سے شام تک منسوب کی جاتی تھیں مجھ سے
ان کے کانوں تک پہنچتی تھیں
اگر میں بول سکتی تو
ہمیشہ کی طرح میں آج بھی اتنا ہی کہہ پاتی
"سلنڈر پھٹ گیا تھا جی"
مرے شوہر وہی سنتے ہیں
اور اتنا ہی سنتے ہیں
جو سننا چاہتے ہیں وہ
بھلا اب جاتے جاتے کیوں کسی کا نام لوں گی میں
وگرنہ بددعائیں پھر لحد سے حشر تک پیچھا کریں گی اور
جہنم جو یہاں کاٹی وہاں بھی منتظر ہو گی
انہوں نے فون پر ان کو بھی یہ بتلا دیا ہو گا
انہوں نے زیرِ لب دہرا دیا ہو گا
"سلنڈر پھٹ گیا ہو گا"
چلو اچھا ہوا بے ربط سانسیں کچھ ہی گھنٹوں میں
یا شاید چند لمحوں میں رکیں گی تو
برائی کی وہ جڑ
جو ان کے گھر کی بے سکونی کی وجہ تھی
کٹ چکی ہو گی
سردار فہد
No comments:
Post a Comment