پیغام موت کا کہیں جانے میں جا بجا
خوف و ہراس پهیلا زمانے میں جا بجا
میزان کر کے دیکها تو معلوم یہ ہوا
نقصان ہى رہا جى لگانے میں جا بجا
تُو دیکھ پڑھ کے اپنا فسانہ حیات کا
موجود ہوں میں تیرے فسانے میں جا بجا
بربادیوں کا اپنى میں الزام کس کو دوں
شامل تھا ہاتھ خود کا مٹانے میں جا بجا
رکھنا تُو داغِ دل کو چھپا کر جہان سے
رسوائی ہو گی ورنہ زمانے میں جا بجا
جس کو ہنسانے کیلئے راحِل لگا دی جاں
مجھ کو وہی لگا ہے رُلانے میں جا بجا
علی راحل
No comments:
Post a Comment