ایسا نہیں کہ شہر میں چرچے نہیں رہے
اکثر ہمارے جاننے والے نہیں رہے
اک میں ہی اپنے آپ میں تنہا نہیں ہوئی
کتنے ہی گھر ہیں ساتھ جو بستے نہیں رہے
کاٹے شبِ فراق میں ایسے بھی رتجگے
پھر اس کے بعد آنکھ میں سپنے نہیں رہے
یوں بھی اکیلا خود کو سمجھنے لگی ہوں میں
جو دل سے تھے قریب وہ رشتے نہیں رہے
یا داستاں ہی مدتوں پیچھے چلی گئی
یا خلق کی زباں پہ ہی قصے نہیں رہے
جن کے اجالنے میں لگی ہم کو ایک عمر
اب آئنے میں نقش وہ چہرے نہیں رہے
اپنی رضا سے بھی کیے کچھ میں نے فیصلے
سب اس کے اختیار ہی چلتے نہیں رہے
موسوم جو کیے تھے ترے نام پر کبھی
آباد اب وہ شہر کے رستے نہیں رہے
یاسمین سحر
No comments:
Post a Comment