Thursday, 24 December 2020

ایسا نہیں کہ شہر میں چرچے نہیں رہے

 ایسا نہیں کہ شہر میں چرچے نہیں رہے

اکثر ہمارے جاننے والے نہیں رہے

اک میں ہی اپنے آپ میں تنہا نہیں ہوئی

کتنے ہی گھر ہیں ساتھ جو بستے نہیں رہے

کاٹے شبِ فراق میں ایسے بھی رتجگے

پھر اس کے بعد آنکھ میں سپنے نہیں رہے

یوں بھی اکیلا خود کو سمجھنے لگی ہوں میں

جو دل سے تھے قریب وہ رشتے نہیں رہے

یا داستاں ہی مدتوں پیچھے چلی گئی

یا خلق کی زباں پہ ہی قصے نہیں رہے

جن کے اجالنے میں لگی ہم کو ایک عمر

اب آئنے میں نقش وہ چہرے نہیں رہے

اپنی رضا سے بھی کیے کچھ میں نے فیصلے

سب اس کے اختیار ہی چلتے نہیں رہے

موسوم جو کیے تھے ترے نام پر کبھی

آباد اب وہ شہر کے رستے نہیں رہے


یاسمین سحر

No comments:

Post a Comment