دن آغاز ہوا
دن آغاز ہُوا
اک آوارہ دن آغاز ہوا
اک آوارہ پت جھڑ جیسا دن آغاز ہوا
لان میں دبکے، میپل کے بوسیدہ پتے اپنی مُٹھی کھولتے ہیں
جانے، کون زبان میں یہ کیا بولتے ہیں؟
میں تو اتنا جانتا ہوں
عمر کی ڈھلتی دھوپ میں یادوں کی مٹی بھی سونا لگتی ہے
کوئی بتائے
کون یہ سونا آنکھ میں بھر کر
پہروں آوارہ پھرتا ہے؟
سرمائی کہرے میں چھپتی جھیلوں پر
بیتے کل کے اونچے نیچے ٹِیلوں پر
بس اک دن کو ساتھ لیے
سانس میں بجھتی رات لیے
کوئی بتائے
کیسے، کب
یہ ماضی کا جلتا بجھتا در باز ہوا؟
دن آغاز ہوا
حامد یزدانی
No comments:
Post a Comment