اک پیڑ پینٹ کر کے مصور جو تھک گیا
پنچھی تخیلات کی نس میں اٹک گیا
پیتا تھا گھول گھول کے الفاظِ شاعری
جب چڑھ گئی تو صاحبِ دیواں بہک گیا
مدت کے بعد نیند کی ٹہنی ہوئی نصیب
اتنے میں تیری یاد کا پنچھی چہک گیا
مُرجھا گئے گلاب مِرے زخم سونگھ کر
کیکر کا پیڑ دیکھ کے مجھ کو مہک گیا
پیچھا کِیا ہے ظلمتِ شب کا سحر تلک
سورج بہت گیا، تو یہی شام تک گیا
سردار فہد
No comments:
Post a Comment