بجھے ہیں سب جلا کوئی نہیں ہے
اندھیرے میں دِیا کوئی نہیں ہے
یہ کیسے زخمِ دل ہیں ہجرتوں کے
ادھڑتے ہیں، سِلا کوئی نہیں ہے
بہت جی چاہتا ہے لَوٹنے کو
مگر اب راستہ کوئی نہیں ہے
مِرے بارے میں سب کرتے ہیں باتیں
مجھے پہچانتا کوئی نہیں ہے
بہت سے لوگ ہیں ہمراہ میرے
مگر ان میں مِرا کوئی نہیں ہے
یہ گھر ہے یا کہ ہے دشت و بیاباں
جہاں در ہیں، صدا کوئی نہیں ہے
کاظم واسطی
No comments:
Post a Comment