قلم پھر سے اٹھا کر رکھ دیا ہے
کسی غم نے رُلا کر رکھ دیا ہے
یہ میری زیست میں کیا موڑ آیا
کہ اندر تک ہلا کر رکھ دیا ہے
کوئی خاکہ تری تصویر جیسا
بنایا تھا، بنا کر رکھ دیا ہے
خس و خاشاک کا اک گھر تھا اپنا
ہوائوں نے مٹا کر رکھ دیا ہے
رہا بس یاد اک لمحہ کہ جس نے
سحر سب کچھ بھلا کر رکھ دیا ہے
یاسمین سحر
No comments:
Post a Comment