درد، تنہائی، تڑپ، آہ و بکا دے کر گیا
زندگی بھر کیلئے اک مسئلہ دے کرگیا
اشتہارِ خفتگی لٹکا ہوا ہے بام پر
کیا امیرِ شہر تھا کیا حوصلہ دے کر گیا
اور جب آیا تو دستک کے بِنا داخل ہوا
روح اور خاکی بدن کو فاصلہ دے کر گیا
ہم انا کی آڑ میں غیرت کے سودا گر ہوئے
کون ایسی بد مزاجی برملا دے کر گیا
ہم روابط کیلئے تو اس قدر راضی نہ تھے
دل بڑا بے صبر نکلا حادثہ دے کر گیا
ہائے رے واحد تری کمسِن مزاجی دیکھ لی
کس طرح اہل جفا کو تُو وفا دے کر گیا
واحد کشمیری
No comments:
Post a Comment