ماہ رو، ماہ تاب شہزادی
تیرے لب ہیں گلاب شہزادی
میری ہر بات پر ادب سے جھکے
اور کہے، جی جناب! شہزادی
سنگ ہو جائیں لوگ حیرت سے
ہو اگر بے حجاب شہزادی
رہ نوردانِ راہِ الفت سے
مت کرو اجتناب شہزادی
دیکھ کر تیرے سرخ ہونٹوں کو
گل ہوئے آب آب شہزادی
پاس بیٹھو، مجھے تسلی دو
حالِ دل ہے خراب شہزادی
سرشار فقیرزادہ
No comments:
Post a Comment