چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے
تجھ کو دیکھا ہے تو تجھ سا نہیں دیکھا میں نے
حادثہ جو بھی ہو چپ چاپ گزر جاتا ہے
دل سے اچھا کوئی رستہ نہیں دیکھا میں نے
پھر دریچے سے وہ خوشبو نہیں پہنچی مجھ تک
پھر وہ موسم کبھی دل کا نہیں دیکھا میں نے
موم کا چاند ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہوں
شہر میں دھوپ کا میلہ نہیں دیکھا میں نے
چڑھتے سورج کی شعاعوں نے مجھے پالا ہے
جو اتر جائے وہ دریا نہیں دیکھا میں نے
پھر مرے پاؤں کی زنجیر ہلا دے کوئی
کب سے اس شہر کا رستہ نہیں دیکھا میں نے
مجھ کو پانی میں اترنے کی سزا دیتا ہے
وہ سمجھتا ہے کہ دریا نہیں دیکھا میں نے
قیس کہتے ہیں فقیروں پہ بہت بھونکتا ہے
اپنے ہمسائے کا کتا نہیں دیکھا میں نے
سعید قیس
No comments:
Post a Comment