Wednesday 23 December 2020

چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے

 چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے 

تجھ کو دیکھا ہے تو تجھ سا نہیں دیکھا میں نے 

حادثہ جو بھی ہو چپ چاپ گزر جاتا ہے 

دل سے اچھا کوئی رستہ نہیں دیکھا میں نے 

پھر دریچے سے وہ خوشبو نہیں پہنچی مجھ تک 

پھر وہ موسم کبھی دل کا نہیں دیکھا میں نے 

موم کا چاند ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہوں 

شہر میں دھوپ کا میلہ نہیں دیکھا میں نے 

چڑھتے سورج کی شعاعوں نے مجھے پالا ہے 

جو اتر جائے وہ دریا نہیں دیکھا میں نے 

پھر مرے پاؤں کی زنجیر ہلا دے کوئی 

کب سے اس شہر کا رستہ نہیں دیکھا میں نے 

مجھ کو پانی میں اترنے کی سزا دیتا ہے 

وہ سمجھتا ہے کہ دریا نہیں دیکھا میں نے 

قیس کہتے ہیں فقیروں پہ بہت بھونکتا ہے 

اپنے ہمسائے کا کتا نہیں دیکھا میں نے 


سعید قیس

No comments:

Post a Comment