سخنوری کے کسی بھنور میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
حقیقتوں کے مہاں سفر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
وہ ریل گاڑی، وہ پٹڑیوں کی صدائیں مجھ کو بتا رہی ہیں
کہ اب بچھرنے کے بعد گھر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
لگے گی آواز تو محبت کے سب دریچے کھلے ملیں گے
مگر یہ غم ہے کہ اب نظر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
پڑھیں گے نادِ علی سفر میں، کریں گے ذکرِ محمدیﷺ بھی
مگر مرے ساتھ رہگزر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
ندیم جوگی بنے ہوئے ہیں، ندیم حق پر کھڑے ہوئے ہیں
سو چند لمحوں کے بعد گھر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
ندیم ملک
No comments:
Post a Comment