تصورِِ کہکشاں ہوتا نہیں ہے
تُو اب مجھ سے بیاں ہوتا نہیں ہے
تڑپ میری جبیں کی بڑھ گئی ہے
مگر، تُو آستاں ہوتا نہیں ہے
مِری قسمت میں ہے جلتا ستارہ
بکھر کے جو دھواں ہوتا نہیں ہے
مِری سانسوں میں تُو اٹکا ہوا ہے
طبیعت میں رواں ہوتا نہیں ہے
خوشی اب بھی مجھے ہوتی ہے لیکن
وہ پہلا سا سماں ہوتا نہیں ہے
وہ دریا ہے جہاں اِک بار گزرے
وہ رستہ بے نشاں ہوتا نہیں ہے
میں اس کے ساتھ چلتی جا رہی ہوں
جو میرا کارواں ہوتا نہیں ہے
تجھے اشکوں میں، میں کیسے بہا دوں
تُو مجھ سے رائیگاں ہوتا نہیں ہے
منزہ سحر
No comments:
Post a Comment