Thursday, 24 December 2020

خیال یار میں جو دربدر نہیں ہوئے ہیں

 خیالِ یار میں جو دربدر نہیں ہوئے ہیں

یقین مانئیے وہ با ہنر نہیں ہوئے ہیں

ہمیں دعاؤں کے کاسے میں جان ڈالنی ہے

ہمارے درد ابھی معتبر نہیں ہوئے ہیں

 پرائے لفظ کو ماتھے پہ لکھ دیا گیا ہے

کہ بیٹیوں کے یہاں کوئی گھر نہیں ہوئے ہیں

غمِ حیات نے گھیرا ہے یہ بجا، لیکن

ترے خیال سےتو بے خبر نہیں ہوئے ہیں

کہیں بلندی پہ ہم نے بھی آج ہونا تھا

تمہارے ہجر کے صدقے مگر نہیں ہوئے ہیں

فراق راتوں کے لمحے نہ پوچھئے مجھ سے

گزر رہے ہیں ابھی تک بسر نہیں ہوئے ہیں

پلٹ کے آنے کی تکلیف مستقل ہے کنول

کبھی بھی جانبِ منزل سفر نہیں ہوئے ہیں


افشاں کنول

No comments:

Post a Comment