بدلنے والی ہے فضا اے دل کچھ اور دیر رُک
ہے شب کا آخری پہر اندھیرے ہوں گے زیر رک
جہانِ دل پہ روشنی بکھیرنے کے واسطے
وہ ماہتاب آئے گا ابھی نظر نہ پھیر رک
ابھی ابھی ہوا ہے عشق ابھی سے کیوں ہے مضطرب
لگے گا تیری زندگی میں بھی غموں کا ڈھیر رک
بہت دنوں کے بعد آئے ہیں وہ خواب میں، انہیں
میں آنکھ بھر کے دیکھ لوں، اے خواب تھوڑی دیر رک
نہیں ہے کام بزدلوں کا عشق کے محاذ پر
یہاں سبھی دلیر ہیں، جو تو بھی ہے دلیر رک
ملے گی دادِ فن کجا، جلیں گے تجھ سے ہم سخن
ہر ایک بزم میں ہنر کے جلوے مت بکھیر رک
دلِ غریب کو اے شاد خواہشوں کے جال میں
قسم ہے تجھ کو یوں نہ بے مروتی سے گھیر رک
شمشاد شاد
No comments:
Post a Comment