جب چشم اشتیاق سے پردا کرے کوئی
اے شوقِ دید تُو ہی بتا کیا کرے کوئی
اک ایک موئے تن ہے زبانِ کرم طلب
کیا بندوبستِ جوشِ تمنا کرے کوئی
میں سر سے پاؤں تک ہوں سراپائے آرزو
وہ شکل ہو گئی ہے کہ دیکھا کرے کوئی
جب زندگی بھی عشق میں دینے لگے جواب
غم کھا کے مر نہ جائے تو پھر کیا کرئے کوئی
ہوگی فدائے حسن کسی روز جان بھی
یہ انتظار ہے کہ اشارا کرے کوئی
دیوار و در کی خاک اڑانے کو ہے بہت
کیوں گھر میں رہ کے خواہش صحرا کرے کوئی
ہم تو جنوں میں کہہ گئے جو منہ میں آگیا
اب ایک ایک لفظ کو سمجھا کرے کوئی
ایسے میں روک تھام تصور کی ہے محال
صورت پھرے نگاہ میں تو کیا کرے کوئی
ایک ایک ذرہ جلوہ گاہ برق طور ہے
افسر نگاہ شوق تو پیدا کرے کوئی
افسر صدیقی
No comments:
Post a Comment