Wednesday 23 December 2020

زندگی درد بھی ہے سوز بھی ہے ساز بھی ہے

 زندگی درد بھی ہے سوز بھی ہے ساز بھی ہے

دلربا ہے یہ کبھی نازشِ انداز بھی ہے

شور ماتم ہے کہیں شورشِ وحشت ہے کہیں

خاموشی میں یہ سسکتی ہوئی آواز بھی ہے

بال و پر ہو کے بھی رہتی ہے کہیں پر مجبور

اور کہیں جستجوئے قوتِ پرواز بھی ہے

خوں رلا دیتی ہےانجامِ سفر پر اپنے

زندگانی کے سفر کا یہی آغاز بھی ہے

طوق پہنائے گلے میں یہ غلامی کے کبھی

جیت لو اس کو تو پھر صاحبِ اعجاز بھی ہے

کتنی رنگین قباؤں میں ملی ہے یہ صدف

نازنیں ہے یہ کہیں، اور کہیں ناز بھی


صبیحہ صدف

No comments:

Post a Comment