جب ترے ہجر کے آثار نظر آتے ہیں
مجھ کو پھولوں میں بھی پھر خار نظر آتے ہیں
موند لیں اس لیے بربادی پہ آنکھیں میں نے
میرے اپنے ہی ذمے دار نظر آتے ہیں
یا وہی بغض وہی کینہ وہی نفرت ہے
یا محبت کے بھی آثار نظر آتے ہیں
میں ہواؤں کے تعاقب میں بھٹک جاتی ہوں
پھر اشارے مجھے بے کار نظر آتے ہیں
میں بلندی سے گرائی گئی جس محنت سے
اس میں اپنوں کے بھی کردار نظر آتے ہیں
شش جہت دکھ کے ہیں انبار ہی پوشیدہ یہاں
جس قدر ہیں پس دیوار نظر آتے ہیں
آنکھ لگتی ہے تو میں خوف سے اٹھ جاتی ہوں
خواب میں قافلے خوں خار نظر آتے ہیں
انعمتا علی
No comments:
Post a Comment