Wednesday 23 December 2020

جب ترے ہجر کے آثار نظر آتے ہیں

 جب ترے ہجر کے آثار نظر آتے ہیں 

مجھ کو پھولوں میں بھی پھر خار نظر آتے ہیں 

موند لیں اس لیے بربادی پہ آنکھیں میں نے 

میرے اپنے ہی ذمے دار نظر آتے ہیں 

یا وہی بغض وہی کینہ وہی نفرت ہے 

یا محبت کے بھی آثار نظر آتے ہیں 

میں ہواؤں کے تعاقب میں بھٹک جاتی ہوں 

پھر اشارے مجھے بے کار نظر آتے ہیں 

میں بلندی سے گرائی گئی جس محنت سے 

اس میں اپنوں کے بھی کردار نظر آتے ہیں 

شش جہت دکھ کے ہیں انبار ہی پوشیدہ یہاں 

جس قدر ہیں پس دیوار نظر آتے ہیں 

آنکھ لگتی ہے تو میں خوف سے اٹھ جاتی ہوں 

خواب میں قافلے خوں خار نظر آتے ہیں 


انعمتا علی

No comments:

Post a Comment