Friday, 25 December 2020

لفظ یوں خامشی سے لڑتے ہیں

 لفظ یوں خامشی سے لڑتے ہیں

جس طرح غم ہنسی سے لڑتے ہیں

جانور جانور سے لڑتا ہے

آدمی آدمی سے لڑتے ہیں

موت کی آرزو میں دیوانے

عمر بھر زندگی سے لڑتے ہیں

جس سے ہے دوستی کا حکم ہمیں

ہم بھی پاگل اسی سے لڑتے ہیں

دوسروں سے کبھی نہیں لڑتے

لوگ جو بھی خودی سے لڑتے ہیں

یہ اندھیروں کے حکمراں سارے

آج بھی روشنی سے لڑتے ہیں

جو انا کے مریض ہوتے ہیں

ہر نئے دن کسی سے لڑتے ہیں

اور بھی لوگ جب ہیں بستی میں

آپ کیوں کر ہمیں سے لڑتے ہیں

ان کو و مزدور کہنا ٹھیک نہیں

لوگ جو مفلسی سے لڑتے ہیں

ابر بے کار لوگ پوچھتے ہیں

آپ بھی کیا کسی سے لڑتے ہیں


انیس ابر

No comments:

Post a Comment