جواب ایسا مری باتوں پہ کامل بھیج دیتا ہے
وہ منہ سے کچھ نہیں کہتا مگر دل بھیج دیتا ہے
چھپا لیتا ہے دریا کو مہارت سے وہ دامن میں
مجھے وہ خشک آنکھوں ہی کا ساحل بھیج دیتا ہے
لڑوں گا اب محبت میں اسے بس مات دینے تک
کمک دشمن کو میداں میں وہ بزدل بھیج دیتا ہے
ہو دشمن ہی بھلے پھر بھی مجھے تسلیم کرتا ہے
کوئی نسلی تُو میرے جب مقابل بھیج دیتا ہے
محبت وہ بھی کرتا ہے محبت کرنے والوں سے
سو نفرت میں بھی چاہت کے مراحل بھیج دیتا ہے
بشرجب بھی کوئی اس کا خدا بننے پہ آ جائے
وہ موسیٰ جیسی ہستی کو مقابل بھیج دیتا ہے
سبق جو مجھ کو دیتا تھا کہ دریا دل بنوصاحب
وہ کاغذ کی بنی کشتی پہ منزل بھیج دیتا ہے
بہت عیار ہے دشمن ردائے صلح میں ساجد
وہ نامہ بر کے ہاتھوں اپنا قاتل بھیج دیتا ہے
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment