غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے
آ کے میرے رو برو تلوار 🗡چمکانے لگے
جی میں کیا گزرا تھا کل جو آپ رکھ قبضہ پہ ہاتھ
خوب سا گھورے مجھے اور تن کے بل کھانے لگے
دل طلب مجھ سے کیا، میں نے کہا؛ حاضر نہیں
یہ غضب دیکھو، مچل کر پاؤں پھیلانے لگے
قتل کر کر یہ نہیں معلوم کیا گزرا خیال
دیکھ وہ بسمل مجھے کچھ حیف سا کھانے لگے
جل کے رنگیں میں نے یہ مصرع تجلی کا پڑھا
دل کو سمجھاؤ مجھے کیا آ کے سمجھانے لگے
سعادت یار خاں رنگیں
No comments:
Post a Comment