خدا کا شوق، کسی کو بتوں کا شوق رہا
ہم آئینے تھے ہمیں پتھروں کا شوق رہا
گزرتی دیکھی تھیں خود پر قیامتیں کیا کیا
وہ دن بھی کیا تھے کہ اچھے دنوں کا شوق رہا
ہماری ہار کا تھا اک یہی تو المیہ
کہ جیت کر بھی ہمیں معرکوں کا شوق رہا
اگرچہ منزلیں پھرتی رہیں تعاقب میں
مگر وہ ہم کہ ہمیں راستوں کا شوق رہا
نہ مل سکا کسی تعبیر کے لیے کوئی خواب
اور آنکھ تھی کہ جسے رتجگوں کا شوق رہا
سفر کی مشکلیں بھی کون جھیلتا ہے سحر
پرائے شہر میں کس کو گھروں کا شوق رہا
یاسمین سحر
No comments:
Post a Comment