اک بحث چل رہی تھی فقیروں کے درمیاں
ہم رہ گئے الجھ کے لکیروں کے درمیاں
کہتا تھا جو تمہارے میں سر کا ہوں سائباں
اس نے بھی گھر بسایا جزیروں کے درمیاں
کوئی ہے پیٹھ پر، کوئی سر پر سوار ہے
میں پھس کے رہ گیا ہوں شریروں کے درمیاں
تاوان سانس لینے کا لے لو غریب سے
یہ بات ہو رہی ہے امیروں کے درمیاں
خلقِ خدا دکھائی بھی دیتی اسے کہاں
جو روز بیٹھتا ہو وزیروں کے درمیاں
شاید ہماری بات بھی سن لیتا حکمراں
وہ خود ہی پھس چکا ہے مشیروں کے درمیاں
ہم کو عزیز تر ہیں رسن اس رہائی سے
اک یہ خبر ملی ہے اسیروں کے درمیاں
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment