Thursday 24 December 2020

اک بحث چل رہی تھی فقیروں کے درمیاں

 اک بحث چل رہی تھی فقیروں کے درمیاں

ہم رہ گئے الجھ کے لکیروں کے درمیاں

کہتا تھا جو تمہارے میں سر کا ہوں سائباں

اس نے بھی گھر بسایا جزیروں کے درمیاں

کوئی ہے پیٹھ پر، کوئی سر پر سوار ہے

میں پھس کے رہ گیا ہوں شریروں کے درمیاں

تاوان سانس لینے کا لے لو غریب سے

یہ بات ہو رہی ہے امیروں کے درمیاں

خلقِ خدا دکھائی بھی دیتی اسے کہاں

جو روز بیٹھتا ہو وزیروں کے درمیاں

شاید ہماری بات بھی سن لیتا حکمراں

وہ خود ہی پھس چکا ہے مشیروں کے درمیاں

ہم کو عزیز تر ہیں رسن اس رہائی سے

اک یہ خبر ملی ہے اسیروں کے درمیاں


عجیب ساجد

No comments:

Post a Comment