سیدھے سادھے لوگ تھے پہلے گھر بھی سادہ ہوتا تھا
کمرے کم ہوتے تھے، اور دالان کشادہ ہوتا تھا
دیکھ کے وہ گھر گاؤں والے سوگ منایا کرتے تھے
صحن میں جو دیوار اٹھا کر آدھا آدھا ہوتا تھا
مستقبل اور حال کے آزاروں کے ساتھ نمٹنے کو
چوپالوں میں ماضی کی یادوں کا اعادہ ہوتا تھا
دکھ چاہے جس کا بھی ہو وہ مل کر بانٹا جاتا تھا
غم تو آج کے جیسے تھے احساس زیادہ ہوتا تھا
لڑکے بالے میلوں پیدل پڑھنے جایا کرتے تھے
پاس ہے جو اسکول وہ پہلے دور افتادہ ہوتا تھا
تھک جاتا کوئی تو مل کر بوجھ کو بانٹا کرتے تھے
دوست نے دوست کا بستہ اپنے اوپر لادا ہوتا تھا
اتنی شرم تو ہوتی تھی آنکھوں میں پہلے وقتوں میں
گلی میں سر نیچا رکھتا جو باہر دادا ہوتا تھا
سوچ سمجھ کر ہوتے تھے تب ساتھ نبھانے کے وعدے
لیکن جو کر لیتے تھے وہ وعدہ پورا ہوتا تھا
خط میں دل اور تیر بنا کر منت کرنی پڑتی تھی
یار بہت مشکل سے ملنے پر آمادہ ہوتا تھا
دیکھ حسن کس منصب سے لے آیا عشق فقیری تک
جس سے پوچھا اپنے دور میں وہ شہزادہ ہوتا تھا
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment