Thursday, 21 January 2021

ژالہ باری ہو رہی ہے موسمِ سرما کے بیچ

 ژالہ باری ہو رہی ہے موسمِ سرما کے بیچ

اور اس کی یاد آئی ہے شبِ یلدا کے بیچ

منجمد کرتے ہوئے لہجوں سے لڑنے کے لیے 

مجھ کو اک جگنو ملا ہے سوچ کے صحرا کے بیچ

پڑ گئی اشنان کرتی اک کنیّا پر نظر 

ہاتھ دل سے دھو لیے بہتی ہوئی گنگا کے بیچ 

بیچتا ہوں نام رب کا، رام کا اور گاڈ کا 

کر لی ہے دوکان مسجد، مندر و گرجا کے بیچ 

میری مخبر دھڑکنوں نے مجھ کو آ کے دی خبر 

ہاتھ تیرے خواب کا ہے نیند کے اغوا کے بیچ

اپنی ساری عمر کی حسرت مٹانی تھی ہمیں 

چند گھڑیاں مل گئیں امروز اور فردا کے بیچ

غیر ممکن ہے نشہ اس آنکھ کا اترے کبھی 

رقص کرتا دیکھ لے تجھ کو اگر برکھا کے بیچ

اس کے ہنسنے سے ہمارا ڈوبنا لازم ہوا

اک بھنور اُبھرا یکایک حسن کے دریا کے بیچ

اچھے اچھے لوگ آسی ہم سے پہلے جا چکے 

کچھ نہیں باقی بچا ہمرے لیے دنیا کے بیچ 


قمر آسی

No comments:

Post a Comment