نہیں موجود پر مثل ہوا ہے، چار سو ہے
اکیلے میں کہ جس کی یاد محو گفتگو ہے
ادائیں، سادگی، شوخی، تغافل، ایک جا ہیں
کوئی تصویر تیرے رنگ میں ہے یا کہ تو ہے
بلا کی تشنگی کا ہو مداوا کس طرح سے
ہر اک منظر پہ ویرانی ہے اور خالی سبو ہے
بہانہ کچھ بھی ہو پوچھے ہمارا حال تُو بھی
نہیں پابند تو اس کا، فقط اک آرزو ہے
کبھی جنگل کی ہرنی ہاتھ آئی ہے کسی کی
سگانِ شہر کی پھر کس لیے سب جستجو ہے
جو انکاری محبت کا تھا اب طالب ہے اس کا
کہاں اس کو چھپائے گا محبت مشک بو ہے
محبت میں طہارت کا یہ پیمانہ ہو احمد
کہ دل ہے قبلہ رو، ہر لفظ بھی کیا باوضو ہے
احمد وصال
No comments:
Post a Comment