Tuesday, 19 January 2021

شعورِ ذات میں جو شر تلاش کرتے ہیں

 شعورِ ذات میں جو شر تلاش کرتے ہیں

وہ موتیوں میں بھی پتھر تلاش کرتے ہیں

کمال ہوش میں ہیں چند سر بریدہ لوگ

یہ اپنے دھڑ کے لیے سر تلاش کرتے ہیں

ہیں اک قبیل کے روشن خیال مینڈک ہم

کنوئیں میں رہ کے سمندر تلاش کرتے ہیں 

جو پھڑپھڑاتے ہیں طائر اڑان سے پہلے 

یہ بازوؤں پہ لگے پر تلاش کرتے ہیں

وہ جس کے صحن سے آتی تھی موتیے کی مہک

چل اپنے گاؤں میں وہ گھر تلاش کرتے ہیں 

تِرے جو خط تِری ضد پر جلا دیئے تھے کبھی

ہم اپنی شیلف میں اکثر تلاش کرتے ہیں 

یہ میرے چاروں طرف گھومتے ہوئے قیدی

مِری قمیض پہ نمبر تلاش کرتے ہیں

پھر اپنے آپ کو بھی ہم وہاں نہیں ملتے

جہاں پہ خود کو چھپا کر تلاش کرتے ہیں

بجائے چارہ گری کے یہاں کے لوگ حسن

ہر اک دکان پہ خنجر تلاش کرتے ہیں


احتشام حسن

No comments:

Post a Comment