چالیسواں دن ہے کرفیو کا
اب وادی ہی میں نافذ نہیں
کرفیو تیرتا ہے
لہو میں میرے
چاند کے ساتھ ساتھ
بن جاتا ہے باطن کی آنکھ
لے لیتا ہے اپنے دسترس میں
میرے دن اور رات
جاگتے خیال اور سارے خواب
بے چینی کے تلاطم میں
بے بسی کے تصادم میں
جسم چھوڑ دیتا ہے
چاند کا ہاتھ
کرفیو کی کائنات میں خاموشی کا سناٹا
آنسو بن کے ٹپکتا ہے
شبنم عشائی
No comments:
Post a Comment