Tuesday, 19 January 2021

تھکن محسوس کرتی ہے کہ بستر چوم لیتے ہیں

 تھکن محسوس کرتی ہے کہ بستر چوم لیتے ہیں

سفر میں جب کبھی منزل کا پتھر چوم لیتے ہیں

نہ کوئی پیر نہ مرشد میں ٹھہرا حضرتِ عاشق

تیری بستی کے کیوں پتھر میرا سر چوم لیتے ہیں

ہماری پیاس کا سمجھوتا قطروں سے نہیں ہو گا

چلو اے تشنگی! بڑھ کر سمندر چوم لیتے ہیں

سکوتِ جسم سے جب روح یہ گھبرانے لگتی ہے

پرانے زخم بڑھ کر نوکِ خنجر چوم لیتے ہیں

انہیں دریا کی لہروں سے نہ ڈر طوفاں سے لگتا

تِری آنکھوں کا جو بہتا سمندر چوم لیتے ہیں

اجالا مانگنے سورج چلا آتا ہےآنکھوں سے

تصور میں تِرا ہم جب بھی پیکر چوم لیتے ہیں

ہمیشہ حوصلوں کی جو اڑا نیں بھرتے رہتے ہیں

وہ دل دنیا میں تحریرِ مقدر چوم لیتے ہیں

 

دل سکندر پوری

No comments:

Post a Comment