تھکن محسوس کرتی ہے کہ بستر چوم لیتے ہیں
سفر میں جب کبھی منزل کا پتھر چوم لیتے ہیں
نہ کوئی پیر نہ مرشد میں ٹھہرا حضرتِ عاشق
تیری بستی کے کیوں پتھر میرا سر چوم لیتے ہیں
ہماری پیاس کا سمجھوتا قطروں سے نہیں ہو گا
چلو اے تشنگی! بڑھ کر سمندر چوم لیتے ہیں
سکوتِ جسم سے جب روح یہ گھبرانے لگتی ہے
پرانے زخم بڑھ کر نوکِ خنجر چوم لیتے ہیں
انہیں دریا کی لہروں سے نہ ڈر طوفاں سے لگتا
تِری آنکھوں کا جو بہتا سمندر چوم لیتے ہیں
اجالا مانگنے سورج چلا آتا ہےآنکھوں سے
تصور میں تِرا ہم جب بھی پیکر چوم لیتے ہیں
ہمیشہ حوصلوں کی جو اڑا نیں بھرتے رہتے ہیں
وہ دل دنیا میں تحریرِ مقدر چوم لیتے ہیں
دل سکندر پوری
No comments:
Post a Comment