مسکرانا بہت آساں تھا کسی کے ہوتے
اب یہ عالم ہے کہ روتے ہیں سبھی کے ہوتے
آسمانوں سے اترنے میں اسے دیر لگی
ہم بھی تاخیر سے آتے تو اسی کے ہوتے
مانگ کر پینے کی عادت نہیں ڈالی اب تک
ہاتھ پھیلائے نہیں تشنہ لبی کے ہوتے
باخبر ہونے میں کیا کیا نہیں کھویا ہم نے
اِس سے بہتر تو یہ تھا ، بے خبری کے ہوتے
یوں دکھانے کو عدالت بھی ہے، میزان بھی ہے
اصل سامان بھی کچھ داد رسی کے ہوتے
وہ زمانہ ہو کہ یہ، ایک ہی رشتہ اپنا
ہر زمانے میں حسین ابنِ علی کے ہوتے
لحظہ بھر ہی سہی اپنے تئیں سوچو جاوید
عشق کرنے کو چلے کج کُلہی کے ہوتے
عبداللہ جاوید
No comments:
Post a Comment