دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہمیں یوسف کا سفر یاد آیا
میں نے تلوار پہ سر رکھا تھا
یعنی تلوار سے سر یاد آیا
وہ تِری کم سخنی تھی کہ مجھے
بات کرنے کا ہنر یاد آیا
اے زمانے مِرے پہلو میں ٹھہر
پھر سلامِ پسِ در یاد آیا
کسے اڑتے ہوئے دیکھا کہ تمہیں
اپنا ٹوٹا ہوا پر یاد آیا
آج میں خود سے ملا ہوں طالب
آج بھولا ہوا گھر یاد آیا
طالب جوہری
No comments:
Post a Comment