Wednesday 20 January 2021

خود فریبی کا نام ٹھہری ہے

 خود فریبی کا نام ٹھہری ہے

زیست مقتل کی شام ٹھہری ہے

شاعری بھی عجیب شے نکلی

حسرتوں کا کلام ٹھہری ہے

اک انا تھی جو شام تھی میری

اب کسی کی غلام ٹھہری ہے

آرزوئیں تڑپ تڑپ جائیں

بے حِسی ایسے عام ٹھہری ہے

چھین کر لے گیا ہے وہ نیندیں

چشمِ نم میرے نام ٹھہری ہے


مسرت جبین زیبا

No comments:

Post a Comment