خود فریبی کا نام ٹھہری ہے
زیست مقتل کی شام ٹھہری ہے
شاعری بھی عجیب شے نکلی
حسرتوں کا کلام ٹھہری ہے
اک انا تھی جو شام تھی میری
اب کسی کی غلام ٹھہری ہے
آرزوئیں تڑپ تڑپ جائیں
بے حِسی ایسے عام ٹھہری ہے
چھین کر لے گیا ہے وہ نیندیں
چشمِ نم میرے نام ٹھہری ہے
مسرت جبین زیبا
No comments:
Post a Comment