کوئی دیوار نہ در باقی ہے
دشتِ خوں حد نظر باقی ہے
سب مراحل سے گزر آیا ہوں
اک تِری راہ گزر باقی ہے
خواہشیں قتل ہوئی جاتی ہیں
اک مِرا دیدۂ تر باقی ہے
کون دیتا ہے صدائیں مجھ کو
کس کے ہونٹوں کا اثر باقی ہے
کٹ گئی شاخ تمنا عنبر
نا امیدی کا شجر باقی ہے
عنبر شمیم
No comments:
Post a Comment