وسعت افلاک میں پھیلا ہے دھارا شام کا
شام ہجراں سے بھی آگے ہے کنارا شام کا
شب نوردوں پہ گراں گزرے گا جنگل کا سفر
آج ڈوبا شام سے پہلے ستارا☆ شام کا
روز آنکھوں میں سپرد خواب ہوتا آفتاب
روز پلکوں پہ اترتا ہے نظارا شام کا
جب بھی ہم نے عالمِ وحشت میں دیکھا ہے اسے
مل گیا اس کی نگاہوں سے اشارا شام کا
جسم و جاں روشن ہیں جس کے جلوۂ خوشرنگ سے
کس نے آخر چہرۂ تیرہ سنوارا شام کا
وہ بھلا سورج نکلنے کی دعائیں کیوں کرے
جس کے آنگن میں اترا ہو ستارا شام کا
آج کی دسترس میں کوئی جگنو بھی نہیں
آج شاہد کس طرح ہو گا گزرا شام کا
شاہد ماکلی
No comments:
Post a Comment