Monday, 18 January 2021

وسعت افلاک میں پھیلا ہے دھارا شام کا

 وسعت افلاک میں پھیلا ہے دھارا شام کا

شام ہجراں سے بھی آگے ہے کنارا شام کا

شب نوردوں پہ گراں گزرے گا جنگل کا سفر

آج ڈوبا شام سے پہلے ستارا شام کا

روز آنکھوں میں سپرد خواب ہوتا آفتاب

روز پلکوں پہ اترتا ہے نظارا شام کا

جب بھی ہم نے عالمِ وحشت میں دیکھا ہے اسے

مل گیا اس کی نگاہوں سے اشارا شام کا

جسم و جاں روشن ہیں جس کے جلوۂ خوشرنگ سے

کس نے آخر چہرۂ تیرہ سنوارا شام کا

وہ بھلا سورج نکلنے کی دعائیں کیوں کرے

جس کے آنگن میں اترا ہو ستارا شام کا

آج کی دسترس میں کوئی جگنو بھی نہیں

آج شاہد کس طرح ہو گا گزرا شام کا


شاہد ماکلی

No comments:

Post a Comment