من کی ممتا سے لپٹ روئیں گے جذبات کے دُکھ
ہم نے بچوں کی طرح پالے ہیں سادات کے دکھ
میں تِرے ہجر کی حِدت پہ غزل کہتا رہا
اور مِری چھت سے ٹپکتے رہے برسات کے دکھ
ہر نئے سال کے بس دن ہی گِنے جاتے ہیں
اہلِ مکتب کی ریاضی میں کہاں رات کے دکھ
دائرہ گھوما جو اس زیست گھڑی کا، تو کھُلا
وقت لے آتا ہے مرکز میں مضافات کے دکھ
جو مِرے دل کی طرح خالی پڑے رہتے ہیں
جا کے دیواروں سے پوچھ ایسے مکانات کے دکھ
نصرت عارفین
No comments:
Post a Comment