محبت کا جو وعدہ کر لیا ہے
یہ وعدہ بے ارادہ کر لیا ہے
مجھے اپنوں کے دکھ بھی جھیلنا ہیں
دماغ و دل کشادہ کر لیا ہے
غموں نے زندگی کو چال دی ہے
اسی سے استفادہ کر لیا ہے
ملو گے جب تو خود ہی دیکھ لینا
تمہارے غم نے آدھا کر لیا ہے
غموں کی فصل جو بھی کاٹنا تھی
اسے خود ہی زیادہ کر لیا ہے
محبت پھر اگر ہو گی تو تم سے
اسی کا بس اعادہ کر لیا ہے
مِری بربادیوں کا پورا قصہ
فسانہ گو نے سادہ کر لیا ہے
طبعت تھی کبھی ناساز اپنی
محبت سے افادہ کر لیا ہے
دل مجرم نے اب کے بار ساجد
شرافت کو لبادہ کر لیا ہے
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment