Tuesday, 19 January 2021

محبت کا جو وعدہ کر لیا ہے

 محبت کا جو وعدہ کر لیا ہے

یہ وعدہ بے ارادہ کر لیا ہے 

مجھے اپنوں کے دکھ بھی جھیلنا ہیں 

دماغ و دل کشادہ کر لیا ہے 

غموں نے زندگی کو چال دی ہے 

اسی سے استفادہ کر لیا ہے 

ملو گے جب تو خود ہی دیکھ لینا 

تمہارے غم نے آدھا کر لیا ہے 

غموں کی فصل جو بھی کاٹنا تھی 

اسے خود ہی زیادہ کر لیا ہے 

محبت پھر اگر ہو گی تو تم سے 

اسی کا بس اعادہ کر لیا ہے 

مِری بربادیوں کا پورا قصہ 

فسانہ گو نے سادہ کر لیا ہے 

طبعت تھی کبھی ناساز اپنی

محبت سے افادہ کر لیا ہے 

دل مجرم نے اب  کے بار ساجد

شرافت کو لبادہ کر لیا ہے


عجیب ساجد

No comments:

Post a Comment