ہم اس نگر میں گئے کارِ دلبری کے لیے
جہاں گدا بھی تھے بیتاب زرگری کے لیے
زمانہ کب مِرے قامت تلک پہنچتا تھا
مجھی کو جھکنا پڑا اس کی ہمرہی کے لیے
عذابِ شام سہولت، سیرابِ صبح مفاد
مُصر ہیں چشمِ قناعت کی بے گھری کے لیے
میں اس لڑائی کا پہلا شکار تھا جو مِرے
محافظوں نے لڑی اپنی برتری کے لیے
خیال و خواب کے چہرے پہ راکھ مل کے جہاں
مشاعرے بھی ہوں بس کارِ مسخری کے لیے
ضمیرِ آدمی شاید غنودہ سر ہے ابھی
کہ نرم گوشہ ہے اس کا سکندری کے لیے
ہم اس نصابِ خجالت کا فخر ہیں مجروحؔ
کہ جس میں شرطِ اطاعت ہے خود سری کے لیے
حسین مجروح
No comments:
Post a Comment