نہ کر تو اے دلِ مجبور آہِ زیر لبی
نہ ٹوٹ جائے کہیں یہ سکوتِ نِیم شبی
یہ کاوشِ غمِ پنہاں ہے عشق کا حاصل
روا نہیں تِری فرقت میں آرزو طلبی
خدا کرے یہیں رک جائے گردشِ دوراں
ہے رازدارِ محبت سکوتِ نِیم شبی
کہاں ہوا ہے تُو شکوہ گزارِ محرومی
جہاں ہے سانس بھی لینا کمالِ بے ادبی
نمودِ حسن ہے گویا سراب کا عالم
یہ کائنات ہے ہنگامہ ہائے بُوالعجبی
دِکھا رہا ہوں نشیب و فراز عالم کے
مگر یہ دل ہے کہ ہے محوِ انتہا طلبی
مجھے بھی فخر ہے اس سلسلے میں اے ثاقب
خدا کا شکر کہ ہوں ہاشمی و مطلبی
ثاقب کانپوری
No comments:
Post a Comment