میں تو لمحات کی سازش کا نشانہ ٹھہرا
تُو جو ٹھہرا تو تیرے ساتھ زمانہ ٹھہرا
آنے والے کسی موسم سے ہمیں کیا لینا
دل ہی جب درد کی خوشبو کا خزانہ ٹھہرا
یاد ہے راکھ تلے، ایک شرارے کی طرح
یہ جو بجھ جائے ہواؤں کا بہانہ ٹھہرا
جھوٹ سچ میں کوئی پہچان کرے بھی کیسے
جو حقیقت کا ہی معیار فسانہ ٹھہرا
عکس بکھرے ہوئے چہروں کے ہیں ہر سمت شمیم
دل ہمارا بھی کوئی آئینہ خانہ ٹھہرا
فاروق شمیم
No comments:
Post a Comment