وہ جو نظروں سے اٹھائے تو اٹھا سکتا ہے
ہار کو فتح دِلائے تو دِلا سکتا ہے
یہ محبت ہے یہاں قید نہیں کوئی بھی
تُو اگر ہاتھ چھڑائے تو چھڑا سکتا ہے
اتنا بے دِید نہیں ہے کہ مجھے دید نہ دے
وہ اگر آنکھ لڑائے تو لڑا سکتا ہے
اس کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے اندھیر نہیں
وہ اگر بات بنائے تو بنا سکتا ہے
مسخرہ ہونا الگ بات ہے، فنکار الگ
خود پہ خود کو بھی ہنسائے تو ہنسا سکتا ہے
تم نہیں جانتے اس شخص کے جلوے کیا ہیں
آنکھ سے شمع جلائے تو جلا سکتا ہے
اس کرامت پہ مِرا پورا یقیں ہے کاتب
اشک سے پھول اُگائے تو اُگا سکتا ہے
سجاد کاتب
No comments:
Post a Comment