مشک و عنبر کی ہو برسات ضروری تو نہیں
چاندنی رات کی سوغات ضروری تو نہیں
اس کے سانسوں کی مہک دل میں ہر اک پَل اترے
اس کے ہاتھوں میں رہیں ہاتھ ضروری تو نہیں
کیا یہ کم ہے کہ وہ ہمراز سمجھتا ہے مجھے
اب بتائے مجھے ہر بات ضروری تو نہیں
یوں بھی ہوتا ہے کہ برسات میں کلیاں ٹوٹیں
یہ خزاؤں کی عنایت ضروری تو نہیں
کیا ضروری ہے میری شام اسی سے مہکے
ریگزاروں میں ہرے پات ضروری تو نہیں
یہ ضروری تو نہیں لب میرے پھر ہوں زخمی
لمحہ لمحہ وہ حکایات ضروری تو نہیں
بھیگی بھیگی ہوئی پلکوں پہ سلگتی شبنم
خشک ہونٹوں پہ شکایات ضروری تو نہیں
میرا ٹوٹا ہوا احساس پکارے ناسک
روٹھے روٹھے ہوئے نغمات ضروری تو نہیں
ناسک اعجاز
No comments:
Post a Comment